Sunday 10 February 2019

رات کا پہلا پہر

ڈوب جائیں گے ستارے اور بکھر جائے گی رات
دیکھتی رہ جائیں گی آنکھیں گزر جائے گی رات

رات کا پہلا پہر ہے اہل دل خاموش ہیں
صبح تک روتی ہوئی آنکھوں سے بھر جائے گی رات

آرزو کی بے حسی کا گر یہی عالم رہا
بے طلب آئے گا دن اور بے خبر جائے گی رات

روشنی کیسی اگر عالم اندھیرا ہو گیا
دل میں بس جائے گی آنکھوں میں اتر جائے گی رات

کوئی آہٹ بھی نہ سن پائے گا خوابیدہ چمن
خشک پتوں پر دبے پاؤں گزر جائے گی رات

دل میں رہ جائیں گے تنہائی کے قدموں کے نشاں
اپنے پیچھے کتنی یادیں چھوڑ کر جائے گی رات

شام ہی سے سو گئے ہیں لوگ آنکھیں موند کر
کس کا دروازہ کھلے گا کس کے گھر جائے گی رات

دیر تک شہزادؔ آنکھوں میں پھرے گی چاندنی
کٹ تو جائے گی مگر کیا کچھ نہ کر جائے گی رات

شہزاد احمد

Monday 4 February 2019

میں ایسی محبت کرتی ہوں

شیریں بھی نہیں، لیلہ بھی نہیں
میں ہیر نہیں، عذرا بھی نہیں
وہ قصہ ہیں، افسانہ ہیں
وہ گیت ہیں ، پریم ترانہ ہیں
میں زندہ ایک حقیقت ہوں
میں جذبہء عشق کی شدت ہوں
میں تم کو دیکھ کے جیتی ہوں
میں ہر پل تم پہ مرتی ہوں

’میں ایسی محبت کرتی ہوں‘
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

جب ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں
الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں
بس دھیان تمہارا رہتا ھے
اور آنسو بہتے رہتے ہیں
ہر خواب تمہارا پورا ہو
اس رب کی منت کرتی ہوں

’میں ایسی محبت کرتی ہوں‘
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

مجھے ٹھنڈک راس نہیں آتی
مجھے بارش سے خوف آ تا ھے
پر جس دن سے معلوم ہوا
یہ موسم تم کو بھاتا ھے
اب جب بھی ساون آتا ھے
بارش میں بھیگتی رہتی ہوں
قطروں میں تمہی کو ڈھنڈتی ہوں
بوندں سے تمہارا پوچھتی ہوں

’میں ایسی محبت کرتی ہوں‘
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

’میں ایسی محبت کرتی ہوں‘
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

سب کہتے ہیں اس دنیا کا
ہر رنگ تمہی سے روشن ھے
میرے عشق کے دعویدار ہیں سب
پر مجھ کو ایسا لگتا ھے
ہر رگ تمہی پہ جچتا ھے
تم نہ ہو تو بےرنگ ہوں میں
بے رونق ھے تصویر میری
تم خواب میرا، تعبیر میری
تم سے ھے جڑی تقدیر میری
جو خاک تمہیں چھو جاتی ھے
اس مٹی پر میں مرتی ہوں.

Saturday 2 February 2019

ﻣﺠﮭﮯ اس ﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ھے

ﻣﺠﮭﮯ اس ﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ھے _ !

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﯿﭗ ﮐﻮ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯽ ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﺳﮯ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﻟﺒﮭﺎﺗﯽ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﮕﻨﻮؤﮞ ﮐﻮ ﺭﺍﺕ ﺁﻧﭽﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺎﺗﯽ
ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﺝ ﺳﺎﺣﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﻞ ﭘﻞ ﺗﺮﺳﺘﯽ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮬﻮﺍ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ
ﺑﺴﺘﯽ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺧﺸﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﺍﺑﺮ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﻼﺗﺎ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﭩﮑﺎ ﺭﺍﮬﯽ ﻣﻨﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﻮ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺷﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﺑﻮﺳﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻠﯿﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮬﮯ ﺍﭨﻞ
ﺍﯾﺴﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﮭﯿﻞ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﻨﻮﻝ
ﺍﯾﺴﮯ
ﮐﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﮐﮧ ﻧﯿﻠﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺭﻭﺷﻦ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺍﺱ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﮧ ﮐﭽﮫ ﭘﻞ ﺳﺎﻧﺲ کی
خواہش

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻤﺲ ﻋﯿﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﻮ ﺭﺍﺣﺖ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻏﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺍﮎ ﻏﻤﺨﻮﺍﺭ ﮐﺎ
ﺭﺷﺘﮧ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﮯ ﺭﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﺳﺎﯾﮧء ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﺎ
رشتہ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺎﻧﺴﺮﯼ ﮐﯽ ﻟﮯ ﭘﮧ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﮔﯿﺖ ﺑﻨﺘﯽ
ﮨﯿﮟ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﺻﻞ ﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﮍﮐﻨﯿﮟ ﺳﻨﮕﯿﺖ ﺑﻨﺘﯽ
ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﻠﺒﻠﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻨﮕﻨﺎﺗﯽ
ﮨﯿﮟ

ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﭼﻮﺩﮨﻮﯾﮟ ﮐﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺑﻼﺗﯽ