Thursday 30 March 2017

تری خوشبو کا پتہ کرتی ہے

تری خوشبو کا پتہ کرتی ہے۔۔
مجھ پہ احسان ہَواکرتی ہے۔۔
شب کی تنہائی میں اب تواکثر
گفتگوتجھ سے رہاکرتی ہے
چوم کرپھول کو آہستہ سے۔۔
معجزہ بادِ صبا کرتی ہے۔۔۔
ابر بَرسےتوعنایت اسکی۔۔
شاخ توصرف دعاء کرتی ہے۔
دیکھنا یہ ہےکہ یہ فصلِ بہار۔
دل کو کیا رنگ عطاء کرتی ہے۔
ہم نےدیکھی ہےوہ اُجلی ساعت۔
رات جب شعر کہا کرتی ہے۔
دل کواس راہ پہ چلناہی نہیں۔
جومجھےتجھ سےجداکرتی ہے۔
زندگی میری تھی لیکن اب تو۔
تیرے کہنے پہ رہا کرتی ہے۔۔
اس نےدیکھاہی نہیں ورنہ یہ آنکھ۔
دل کا احوال کہا کرتی ہِے۔۔
بےنیازِ کفِ دریا انگُشت
ریت پرنام لکھا کرتی ہے۔
دیکھو تو آن کے چہرہ میرا۔
اک نظر بھی تری کیا کرتی ہے۔
شام پڑتے ہی کسی شب کی یاد۔
کوچئہ جاں میں صدا کرتی ہے۔۔
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا۔۔
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے۔۔
(پروین شاکر)

شدت عشق ضم کیجئے

شدت عشق ضم کیجئے
یا دردِ مُحبت کم کیجئے

تکمیلِ تعلق جب ناممکن 
مُبہم سلسلے ختم کیجئے

چاہت ہے توحید جیسی
بس اِک کو صنم کیجئے

ہر درد اپنا ہی لگے گا
ذرا محبت کا وہم کیجئے

مُشکلاتِ زندگی میری
مل کر کُچھ کم کیجئے

خاموشی سُخنورِ جہاں 
تنہائی کو باہم کیجئے

دَر باطن بھی وا ہوگا
ذرا آنکھ تو نم کیجئے

پُرانے گھاؤ بھر چُکے
عنایت مزید الم کیجئے

جان گئے رمزِ درد اب
نئے کُچھ ستم کیجئے

ہم مَر مٹے کیوں تُم پہ
استعمال ذرا فہم کیجئے

میں ، تُم ، تنہا ، تنہا
اپنا کر ' ہَم ' کیجئے

مزاج یار کے آگے بس
سر تسلیمِ خم کیجئے

عشق اوّل ، عمرِ آخر
کُچھ تو شرم کیجئے

زیست اذیت مسلسل
مرگ آ کر رحم کیجئے

زود اثر ہوں گے الفاظ
لہجہ ہمیشہ نرم کیجئے

وقت لگا ہے بھرنے
ہرے پھر زخم کیجئے

گُفتگو قلب و روح
دھڑکنیں باہم کیجئے

خوشی میسر تا عمر
خواہشات کَم کیجئے

سر چڑھ کر جو بولے
جادو وہ ہردَم کیجئے

جب رَب ہی ہے سب کچھ
پھر کاہے کو غم کیجئے

Tuesday 28 March 2017

خاوند کی فرمانبرداری سے یہ ملتاہے

خاوند کی فرمانبرداری سے یہ ملتاہے!

ایک حدیث میں
رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو اس کیلئے پرندے ہوا میں استغفار کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں استغفار کرتی ہیں اور فرشتے آسمانوں میں استغفار کرتے ہیں اور درندے جنگلوں میں استغفار کرتے ہیں۔
(معارف القرآن)

(عبقری میگزین نومبر2011ءصفحہ19)

Sunday 19 March 2017

کوئی تردید کا صدمہ

کوئی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دُکھ

جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو کس بات کا دُکھ
اب کوئی اور تمنا ہے عذابِ دل و جاں

اب کسی حرف میں تُو ہے نہ تری ذات کا دُکھ
میز پر چائے کے دو بھاپ اُڑاتے ہوئے کپ

اور بس سامنے رکھا ہے ملاقات کا دُکھ
مضمحل جسم سے ناراض سرکتی ہوئی شال
کیوں چھپانے سے چُھپایا نہ گیا رات کا دُکھ

اَب مرے دل میں نہیں تیرے بچھڑنے کی کسک
اَب کے بیگانہ روی میں ہے مُناجات کا دُکھ

خشک جنگل سے کسی دن تو دھواں اٹھتا ہے
اور جہالت بھی اُٹھاتی ہے فسادات کا دُکھ...!!!

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮔُﻼﺏ ﺟﯿﺴﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﭼَﮭﻨﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻟﮩﺠﮧ ﺷﺮﺍﺏ ﺟﯿﺴﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺯُﻟﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﭩﺎ
ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺭُﺥ ﻣﺎﮨﺘﺎﺏ ﺟﯿﺴﺎ ﺗﮭﺎ
ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧَﺬ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﻭﮦ ﺍَﺩﺏ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏِ ﺟﯿﺴﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﻮﻟﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺯﺑﺎﻥ ﺧُﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ
ﻟﻮﮒ ﺳﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﺳﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺁﺋﻨﮯ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﺳﺎﺭﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﮔُﮭﻞ ﻣﻞ ﮐﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺭﮨﻨﺎ
ﺍﯾﮏ ﺩﺭﯾﺎ ﻧُﻤﺎ ﺳَﺮﺍﺏ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺧﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ " ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﮭﺎ "
ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﭘﮧ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺻُﻮﺭﺕ ﺳﺎﯾﮧ ﻭ ﺳﺤﺎﺏ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺍﭘﻨﯽ ﻧﯿﻨﺪﯾﮟ ﺍُﺳﯽ ﮐﯽ ﻧﺬﺭ ﮨُﻮﺋﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺭﺗﺠﮕﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﺩﻝ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﺭﻧﮓ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﻧﭽﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩِﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ
ﯾﮧ ﻣﮕﺮ ﺩﯾﺮ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻣﮕﺮ ﺩُﻭﺭ ﮐﺎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻼﭖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ
ﺍَﺏ ﺗﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺑﮭﺮﺍ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﮭﯽ
ﺩﺷﺖِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺍِﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ...!!!

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے،
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اِک وہم ہے یہ دُنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

عبیداللہ علیم

جب قرآن پہ پابندی لگی 1973 روس میں

جب قرآن پہ پابندی لگی :
1973 روس میں کمیونزم کا طوطا بولتا تھا بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجاے گا ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے وہ کہتے ہے کہ جمعے کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچے ہے جو کھبی بند اور کھبی کھلے ہوتے ہیں میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دے میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے ساتھ مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،
اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوی نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجاے ۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشیش کرنے لگا کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آزان دی ۔۔۔۔۔ آزان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ۔۔۔۔ لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا،۔۔۔۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کویی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلا،
ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آے ۔ اسکے لہجے میں حلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے کھانا کھایا چاے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ۔ ؟
بچے نے کہا جی بلکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناو مجھے ۔۔۔
بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا ۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نھی آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
رکھی تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی ۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا " حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟
انہوں نے مسکرا کر کہا " دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جاے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں "
" تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں " میں نے مزید حیران ہوکر کہا
" ہمارے پاس قرآن کے کئ حافظ ہے کوئی درزی ہے کوی دکاندار کوئ سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے ۔۔۔۔ وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اسلیئے ہماری نیی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکہ لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔
وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئ ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئ تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئ سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دی ، میں نے کہا
" لوگوں ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے
إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
احباب سے پرزور اپیل ہے کہ اس تحریر کو دل کھول کہ شیئر کریں آپکا ایک سینکڈ لگے گا اور لوگوں کے علم میں اضافہ ہوگا اور اس کار خیر کا سبب آپ بنو گے... جی ہاں آپ...

Saturday 18 March 2017

مسافر تو بچھڑتے ہیں


مسافر تو بچھڑتے ہیں، رفاقت کب بدلتی ہے
محبت زندہ رہتی ہے، محبت کب بدلتی ہے

تمہی کو چاہتے ہیں ہم، تمہی سے پیار کرتے ہیں
یہی برسوں سے عادت ہے، یہ عادت کب بدلتی ہے

تمھیں جو یاد رکھا ہے، یہی اپنی عبادت ہے
عبادت کرنے والوں کی عبادت کب بدلتی ہے

کِلی کا پھول بننا اور بکھر جانا مقدر ہے
یہی قانونِ فطرت ہے یہ فطرت کب بدلتی ہے

جو دل پہ نقش ہو جائے، نگاہوں میں سمٹ آئے
علامت ہے یہ چاہت کی تو چاہت کب بدلتی ہے

پُرانے زخم کو -------بُھلا دینا ہی اچھا ہے
اگر چاہے نہ خود کوئی تو قسمت کب بدلتی ہے

کبھی کبھی تو جذبِ عشق

کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا

جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے
کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا

کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں
زمانہ اس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا

یہ کیا مقامِ شوق ہے، نہ آس ہے کہ یاس ہے
یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا

کوئ بھی ہم سفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں
بہت ہوا تو رفتگاں کا دھیان آ کے رہ گیا

چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گۓ
ترا خیال راستے سُجھا سُجھا کے رہ گیا

چمک چمک کے رہ گئیں نجوم و گل کی منزلیں
میں درد کی کہانیاں سُنا سُنا کے رہ گیا

ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئ
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا

وہی اداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا
ترے وصال کا زمانہ یاد آ کے رہ گیا

پیوست دِل میں جب تِرا تیرِ نظر ہوا

پیوست دِل میں جب تِرا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جِگر ہوا

کُچھ داغِ دل سے تھی مُجھے اُمید عشق میں
سو رفــــتہ رفـــــــــتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا

تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دِل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چــــــــــــــــہرہ مِرا نامــــــہ بر ہوا

سینے میں پِھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معامـــــــلۂ چشمِ تر ہوا

رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ! کس کا خانۂ دِل میں گُـــــــــــزر ہوا

فریاد کیسی کِس کی شکایت کہاں کا حشر
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پـــــــــــڑی وہ جدھر ہوا

وارفتگیِ شوق کا اللہ رے کمال
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا

حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر اے جگر
جو فصلِ گُل کے آتے ہی بے بال و پـــر ہوا

میرے درد کی جو دوا کرے

میرے درد کی جو دوا کرے کوئی ایسا شخص ہوا کرے
وہ جو بے پناہ اداس ہو مگر ہجر کا نا گلہ کرے

میری چاہتیں میری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم
تو وہ سب سے چھپ کے لباس شب میں لپٹ کے آہ و بقا کرے

بڑھے اسکا غم تو قرار کھودے وہ میرے غم کے خیال سے
اٹھے ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دعا کرے

یہ قصص عجیب و غریب ہے یہ محبتوں کا نصیب ہے
مجھے کیسے خود سے جدا کرے، کوئی کچھ بتائے کہ کیا کرے

کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ وہ فراق کے سارے فاصلے
میرے پیچھے آ کے دبے دبے میری آنکھیں موند ہنسا کرے

بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا
وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں، کوئی کچھ تو جا کے پتا کرے

یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے، میں نہیں ہوں پھر میری آرزو
کو جنوں ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے

بھلا کیسے ہی اپنے آپ کو میں رفیق جاں بنا سکوں
کوئی اور ہے تو بتا تو دے،کوئی ہے کہیں تو صدا کرے

اسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی میری خلوتوں کی اداسیاں
وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ، میرا مولا تیرا بھلا کرے

لبرلز اور نام نہاد

#لبرلز اور نام نہاد #دانشوری جھاڑنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کا ایک انداز یہ بھی ہے
_________
لاہور کی معروف یونیورسٹی میں ایک عزیز دوست میڈیا اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کی ڈگری کر رہے ہیں۔ واقعہ بیان کرتے ہیں دورانِ لیکچر ایک روز اسلام اور رسول ﷺ کی توہین کا معاملہ زیرِ بحث آیا تو لیکچرار صاحب نے دانشوری بکھیرتے ہوئے فرمایا گستاخِ رسول کو تبلیغ کے ذریعے قائل کرنا چاہیے اور اپنے دعوے کی تائید میں مختلف قسم کے بودے دلائل جھاڑنے لگے جو شرعی لحاظ سے بھی غلط تھے۔
خاصا دینی علم ہونے کے باوجود میرے دوست نے انکو دوسرے طریقے سے جواب دینے کا فیصلہ کیا اور بھری کلاس میں بآوازِ بلند گویا ہوئے
"چل اوئے کھوتے کے بچے یہ کیا بکواس کر رہا ہے"
یہ گالی سن کر لیکچرار صاحب کی دماغ کی چولیں ہل گئیں، منہ سے جھاگ اڑاتے گالیاں بکتے اس دوست کا گریبان پکڑنے کو دوڑے، تو نے میرے باپ کو کھوتا کہا ؟؟
خیر بمشکل دیگر ہم جماعت دوستوں نے لیکچرار کو قابو کیا اور یہ دوست اپنی نشست پر کھڑا ہو کر کہنے لگا
جنابِ والا آپ کے باپ کو گالی دینے پر معافی چاہتا ہوں لیکن آپ نے مجھے سمجھانے کیلیے تبلیغ کیوں نہ کی اور اس قدر جلال میں آکر دوگنا گالیاں کیوں دے گئے ؟
لیکچرار آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور ہنوز غصے میں کانپ رہا تھا جس پر دوست نے کہا
"النبی اولی بالمومنین من انفسھم "
نبی ﷺ مومنین پر انکی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں، مومن کیلیے نبی ﷺ کی عزت اپنے ماں باپ سے بہت زیادہ ہوتی ہے، فداک امی و ابی یا رسول اللہ کے نعرے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے۔ بس اتنی سادہ سی بات تھی جس کو سمجھنے کیلیے کسی گہرے فلسفے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔۔!
#فداه_أبي_وأمي
صلى الله عليه وسلم
(منقول)

Thursday 16 March 2017

آنکھوں کو پُر نم

آنکھوں کو پُر نم ، حسرت کا دروازہ وا رکّھا ہے
اپنے ٹوٹے خواب کو ہم نے' اب تک زندہ رکّھا ہے

عشق کِیا تو ٹوٹ کے جی بھر ' نفرت کی تو شدّت سے
اپنے ہر کردار کا چہرہ ' ہم نے اُجلا رکّھا ہے

جو آیا بازار میں وہ بس جانچ پرَکھ کر چھوڑ گیا
ہم نے خود کو سوچ سمجھ کر ' تھوڑا مہنگا رکّھا ہے

تھا اعلان کہانی میں' اک روز ندی بھی آئے گی
ہم نے اِس امّید میں خود کو اب تک پیاسا رکّھا ہے.!!!

فاختہ کی ممتا اور بارگاہِ رسالت ﷺ

فاختہ کی ممتا اور بارگاہِ رسالت
ایک اعرابی اپنے اوپر چادر ڈالے حاضر ہوا اور کہنے لگا: آپ میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بتایا:’’ یہ ہیںروشن چہرے والے‘‘ اعرابی نے حضور ﷺ سےعرض کیا: ’’یامحمد ﷺ اگر آپﷺ سچے نبی ہیں تو بتائیے کہ میرے پاس کیا ہے؟ اگربتا دیا تو میں آپ ﷺ پر ایمان لے آؤںگا۔اعرابی نے ایمان لانے کا وعدہ کرلیا تو حضورنبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’سنو! تم فلاں وادی سے گزر رہے تھے۔ تمہاری نظر فاختہ کے گھونسلے پر پڑی‘ اس میں دو بچے تھے۔ تم نے پکڑلیے جب فاختہ نے گھونسلہ خالی دیکھا تووادی میں چاروں طرف اڑنے لگی۔ تمہارے سوا اسےکچھ بھی نظر نہ آیا تو فاختہ کو یقین ہوگیا کہ بچے تمہارے پاس ہیں۔ اپنے بچوں کی خاطر وہ تمہارے سامنے گرپڑی تو تم نے اُسے بھی دبوچ لیا‘ اس وقت دو بچے اور ان کی ماں تینوں تمہارے پاس ہیں۔‘‘ یہ سن کر اعرابی نے اپنی چادر اتار دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادپاک کے مطابق تینوں پرندے اس میں موجود تھے۔ پھر کیا تھا؟ اعرابی کلمہ پڑھ کر ایمان لے آیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ماں کی ممتا پر متعجب ہوئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم اس پر تعجب کررہے ہو‘سنو جب بندے توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر فاختہ کی ممتا سے بھی زیادہ رحم آجاتا ہے۔‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ نے اعرابی سے فرمایا: ’’ فاختہ اور اس کے بچوں کو آزاد کردے۔‘‘ (مشکوٰۃ)(عبقری میگزین اپریل 2013ءصفحہ19)

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے

یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا
ستم تو یہ ہے کہ کہتا ہے 'جا، نہیں کرتا'

طلوعِ عارض و لب تک میں صبر کرتا ہوں
سو، منہ اندھیرے غزل ابتدا نہیں کرتا

یہ شہر ایسے حریصوں کا شہر ہے کہ یہاں
فقیر بھیک لیے بِن دعا نہیں کرتا

زباں کا تلخ ہے لیکن، وہ دل کا اچھا ہے
سو، اس کی بات پہ میں دل برا نہیں کرتا

بس ایک مصرعۂ تر کی تلاش ہے مجھ کو
میں سعیِ چشمہء آبِ بقا نہیں کرتا

شہیدِ عشق کی سرشاریاں ملاحظہ ہوں
گلا کٹا کے بھی خوش ہے، گِلہ نہیں کرتا

رحمان فارس

وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آ ہٹ تک نہیں ہوتی

کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
بھجا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی

صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی

چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کرمٹے جاتے ہیں گرگرکر
حضورِ شمع پروا نوں کی نادانی نہیں جاتی

وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آ ہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی

محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیا نی نہیں جاتی

جگر مرادآبادی

مجھے آرزوئے سحر رہی

مجھے آرزوئے سحر رہی،
یونہی رات بڑی دیر تک ....
نہ بکھر سکا، نہ سمٹ سکا،
یونہی رات بڑی دیر تک ....
ہیں بہت عذاب اور اکیلے ہم،
شبِ غم بھی میری طویل تر ...
رہی زندگی بھی سراب اور،
رہی آنکھ تر بڑی دیر تک ....
یہاں ہر طرف ہے عجب سماں،
سبھی خود پسند
سبھی خود نما،
دل بےقرار کو نہ ملا،
کوئی چارہ گر بڑی دیر تک ....
مجھے زندگی ہے عزیز تر،
اسی واسطے میرے ہمسفر ....
مجھے قطرہ قطرہ پلا زہر،
جو کرے اثر بڑی دیر تک .....

ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ

ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ !...
ﻣَﮕﺮ ﻣَﻄﻠَﺐ ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﺎ،
ﺳَﻤﺠﮫ ﻟَﯿﻨﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﻥ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﭘﺎ ﮐﮯ ﮐَﮭﻮ ﺩَﯾﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﮭﻮ ﮐﮯ ﭘﺎ ﻟَﯿﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍُﻥ ﻟَﻮﮔُﻮﮞ ﮐﮯ ﻗِﺼّﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﺟَﻮ ﻣُﺠﺮِﻡ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻣِﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﮨَﻨﺴﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺑِﭽَﮭﮍ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺭَﻭﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
!.............! ﺳُﻨﻮ !.............!
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐَﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗَﻮ،
ﺑﮩﺖ ﺧﺎﻣَﻮﺵ ﮨَﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻗُﺮﺑَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟَﻮ ﻓُﺮﻗَﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﻓَﺮﯾﺎﺩ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﮧ ﻭﮦ ﺍَﺷﮑُﻮﮞ ﮐَﻮ ﭘِﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮐﮯ ﮐِﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻟَﻔﻆ ﮐﺎ،
ﭼَﺮﭼﺎ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﻭﮦ ﻣَﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍَﭘﻨﯽ ﭼﺎﮨَﺖ ﮐَﻮ،
ﮐَﺒﮭﯽ ﺭُﺳﻮﺍ ﻧَﮩﯿﮟ ﮐَﺮﺗﮯ،
ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﮐَﮩﻨﺎ،
ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨَﻢ ﺑﮭﯽ ﮐَﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.!!!

کوئی تو ہوتا

کوئی تو ہوتا
میں جس کے دل کی کتاب بنتا
میں جس کی چاہت کا خواب بنتا
میں ہجر کے موسم کی لمبی راتوں میں
یاد بن کر عذاب بنتا
کوئی تو ہوتا
جو میری خواہش میں آٹھ کر راتوں کو خوب روتا
دکھوں کی چادر لپٹ کر ہجوم دنیا سے دور ہوتا
میں روٹھ جاتا مناتا مجھ کو
کہ چاہے میرا قصور ہوتا
کوئی تو ہوتا
میں جس کے اتنا قریب ہوتا
نا پاس کوئی رقیب ہوتا
میں اتنا اس کا حبیب ہوتا
یہ سلسلہ بھی عجیب ہوتا
کوئی تو ہوتا...

ھمتِ التجا نہیں باقی

ھمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی

اک تری دید چھن گئ مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی

اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھیںچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی

ترے چشمِ عالم نواز کی خیر
دل میں کوئئ گلہ نہیں باقی

ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی

فیض احمد فیض

Monday 13 March 2017

SardiOn K MOusam

‏سردیوں کے موسم میں.
یاد کی زمینوں پراتنی دھول اڑتی ہے.
آنکھ کے کناروں پرسارے خوشنما منظر...
دھندلا سے جاتے ہیں...
کچھ نظر نہیں آتا...