نادان یہ عورت کیا جانے
سب گھات لگائے بیٹھے ہیں
باتوں میں تو کیسے آئے گی
سب بات بنائے بیٹھے ہیں
کب قدم تیرے رستہ بھٹکیں
سب نظریں جمائے بیٹھے ہیں
یہ مال سمجھتے ہیں تجھکو
بازار سجائے بیٹھے ہیں
منہ سے تجھے مظلوم کہیں
سوچوں میں نچائے بیٹھے ہیں
تو بہن بھی ہے تو ماں بھی ہے
سب رشتے گمائے بیٹھے ہیں
یہ عورت مرد کے رشتے کو
بس کھیل بنائے بیٹھے ہیں
یہ بد ہیں, بدکردار بھی ہیں
صورت کو چھپائے بیٹھے ہیں
گر ایسا نہیں تو چپ کیوں ہیں
کیوں دین گمائے بیٹھے ہیں
سبق ہیں جو الله نے دیے
کیوں سارے بھلائے بیٹھے ہیں
تو ان پہ بھروسہ نہ کرنا
یہ جال بچھائے بیٹھے ہیں
خود اپنی حفاظت کرنی ہے
یہ شرم مٹائے بیٹھے ہیں
No comments:
Post a Comment